پاکستان نیوز! اللہ تعالیٰ پر توکل یعنی بھروسہ کرنا انبیاء کرام کے طریقہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔ قرآن وحدیث میں توکل علی اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ صرف قرآن کریم میں سات مرتبہ ’’وَعَلَی اللّٰہِ فَلْيَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْن‘‘ فرماکر مؤمنوں کو صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید کی گئی ہے، یعنی حکم خداوندی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو صرف اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے
۔ آئیے سب سے قبل توکل کے معنی سمجھیں۔ توکل کے لفظی معنی کسی معاملہ میں کسی ذات پر اعتماد کرنے کے ہیں، یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توکل کہلاتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں توکل کا مطلب: اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیاوی واخروی تمام معاملات میں نفع ونقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے حکم کے بغیر کوئی پتا درخت سے نہیں گر سکتا۔ ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے۔ غرضیکہ خالق کائنات کی ذات باری پر مکمل اعتماد کرکے دنیاوی اسباب اختیار کرنا توکل علی اللہ ہے۔ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اسے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہیں دے گا دوا اثر نہیں کرسکتی۔
یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نظام یہی ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرکے کام کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ کرے، یعنی یہ یقین رکھے کہ جب تک حکم خداوندی نہیں ہوگا اسباب اختیار کرنے کے باوجود شفا نہیں مل سکتی۔جو بہن بھائی روزی کی وجہ سے پریشان
اپنی رائے کا اظہار کریں